مندرجات کا رخ کریں

سید عبدالوہاب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سید عبدالوہاب
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1538ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ترکئی، پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 1630ء (91–92 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

آپ کا نام سید عبد الوہاب المعروف آخوند پنجوبابا ہے۔

نام و نسب

[ترمیم]

آپ کا نام سید عبد الوہاب پشاوری ہے۔ اور والد کا نام سید غازی بابا نو سلجائی سید حسینی ہے۔ جن کے ہاں آپ 943ھ میں موضع الکائے علاقہ یوسفزئی پیدا ہوئے آپ آخوند پنجو باباکے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کو کتب تاریخ و سیر میں شیخ پنجو سنبھلی لکھتے ہیں۔ نیز آپ بھی اپنی نسبت سنبھل سے کرتے، آپ کے آباؤاجدادوہاں سے ہی آئے تھے، اسی لیے آئین اکبری میں شیخ ابو الفضل نے (جو جلال الدین اکبر کا وزیر تھا) آپ کو شیخ پنجو سنبھلی لکھا ہے ۔

پنجو کی وجہ تسمیہ

[ترمیم]

پنجو آپ کو اس لیے کہا گیا کہ جب پیروان پیر تاریکی ( جس کا نام بازید انصاری اور لقب پیرروشن دین تھا)کو آپ نے ارشاد و ہدایت شروع کی تو چونکہ وہ احکام شریعت اسلامیہ پر عمل نہیں کرتے تھے بلکہ استہزاء کیا کرتے تھے۔ اس لیے آپ نے ان کو سب سے پہلے پانچ بنا اسلام سے تعلیم دینا شروع کیا، انھوں نے بوجہ مخالفت ازروئے تحقیر کے آپ کو پنجو بابا کہنا شروع کر دیا۔ جب آپ کی خدمت میں یہ بات کہی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اس سے بہتر اور کیا ہو گا کہ میرالقب ’’ پانچ بنا اسلام ‘‘ ہو اور دعا فرمائی کہ اے اللہ قیامت تک میرا یہی لقب ہو، چنانچہ ایسے ہی ہوا۔

علم ظاہر باطن

[ترمیم]

آپ علم لدنی رکھتے تھے۔ مگر پھر بھی ظاہر ی طور پر آپ نے علوم ظاہری سے فراغت حاصل کی۔ موضع چوہا گجر میں ان دنوں ایک بڑے عالم دین قاضی تھے۔ ان کی خدمت میں پہنچ کر علوم متداولہ کو پڑھا۔ اس کے بعد ہندوستان تشریف لے گئے اور کافی عرصہ تک علما سے پڑھتے رہے۔ ان ایام میں آپ زیادہ عرصہ روہیل کھنڈ میں مقیم رہے۔ تحصیل علم کے بعد واپس صوبہ سرحد لوٹے۔990ھ میں بعمر 45 سال اپنے چھوٹے بھائی کے ہمراہ موضع اکبر پورہ میں مستقل قیام اختیار کیا اور مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوئے علامہ شمس العلما ء قاضی میر احمد شاہ رضوانی تحفۃ الاولیاء میں فرماتے ہیں کہ تقریباً علما و مشاہیر وقت نے آپ سے علوم ظاہری میں دستار فضلیت یعنی سند حاصل کی۔ آپ نے کافی عرصہ تفسیر، حدیث، فقہ ،اصول، منطق اور اخلاق کا درس دیا اور انتہائی جان فشانی کے ساتھ تبلیغ و اشاعت شریعت مطہرہ میں منہمک رہے۔

993ھ میں جناب میرا ابوالفتح صاحب اقنپاچی (جو شیخ المشائخ جلال الدین تھانیسری کے خلیفہ تھے) پشاور شہر سے ہوتے ہوئے اکبر پورہ تشریف لائے اور آپ نے طریقہ چشتیہ میں ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اورخلافت سے نوازا۔

جاہ و جلال

[ترمیم]

چونکہ آپ کے رخ انور سے ہر وقت انوار الٰہی کی بارش رہتی اس لیے کوئی بھی جی بھر کر آپ کے چہرۂ ا نور کو نہ دیکھ سکتا اور جو بھی آپ کے رخ اقدس کو ’’ توجہ‘‘ اور ہمت سے دیکھ لیتا، تو عارف کامل ہوجاتا۔ اگر کسی بھی مشرک کی نظر آپ کے نورانی چہر ہ پر پڑجاتی تو فوراً کلمہ توحید پڑھ لیتا۔ یہی وجہ تھی کہ ہندو آپ کا نام سنتے ہی چھپ جاتے۔ ایک بار ہشتنگر سے ہندوؤں کی ایک برات اکبر پورہ آئی۔ اس برات سے تقریباً دن نوجوان آپ کی مسجد میں آکر آپ سے ملاقی ہوئے۔ آپ کا چہرہ دیکھ کر بیہوش ہو گئے اور تڑپنے لگے، جب ان کو ہوش آیا تو مسلمان ہو گئے۔ اور آج تک اس شیخ کا گھر اکبر پورہ میں آباد ہے۔ گویا آپ کی ذات والا صفات میں اتنی ثاثیر اور اتنا جذبہ تھا کہ جو بھی اس وقت آپ کے سامنے آتا وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ جب آپ کے علم ظاہری و فیوضات باطنی کا شہر ہ چاروں طرف پھیل گیا۔ تو معاصر علما اور مشائخ نے آپ کی مخالفت کی اور آپ سے بحث و مناظرہ کی ٹھانی اور اکٹھے ہو کر فیصلہ کیا کہ آپ کی مسجد میں جا کر آپ سے مناظرہ کریں اور کسی قسم کی آپ کی تعظیم و تکریم نہ کریں۔ جب وہ آپ کی مسجد میں پہنچے تو اس وقت آپ گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ آپ کے فرزند ارجمند سید عثمان صاحبؒ نے آپ کو ان کے آنے کی خبر دی۔ آپ تشریف لائے۔ ان علما نے آپ کا رخ انور دیکھتے ہی فوراً قدمبوسی کی۔ اور یک بارگی لاالہٰ کا نعرہ لگا کر بے ہوش ہو گئے، حتی کہ نماز ظہر کا وقت آ گیا، جب ظہر کے نوافل سے فارغ ہوئے تو میاں علی صاحب نے عرض کیا کہ حضور اگر ان کی یہی حالت رہی تو شریعت اور علم کی بہت بے قدری ہوگی اور بے حرمتی۔ آپ نے ان پر توجہ کر کے ’’ الا اللہ‘‘ کا نعرہ لگایا تو وہ سب ہوش میں آ گئے اور تائب ہو کر مرید ہوئے۔

استغناء کا عالم

[ترمیم]

آپ میں اتنی سخاوت تھی کہ جو بھی آپ کے پاس حاجتمند آیا خالی نہیں لوٹا۔ آپ کے لنگر سے امیر و غریب سب کوبرابر کھانا ملتا، مفلوک الحال اور غربا کی امداد کرنا آپ کا خاص وصف تھا۔ استغناء کا یہ عالم تھا کہ امیر وحکام سے تحفے قبول نہ فرماتے۔ بادشاہ مغلیہ کی طرف سے کئی بار لنگر کے مصارف کے لیے پیش کش کی گئی۔ مگر آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

تعلیمات کے اثرات

[ترمیم]

آپ نے پیر بابا اور آخوند درویزہ کی طرح بایزید انصاری الملقب پیرروشن اور ان کے پیروان کے خلاف تبلیغی اور عملی طور پر کام کیا۔ چونکہ اس علاقہ میں اس کے متبعین بکثرت تھے، اس لیے آپ ان کی مخالفت کا پورا نشانہ تھے۔ مگر آپ نے ہمت استقلال اور کرامت کے ذریعہ اس علاقہ کو ان بے راہ رو لوگوں سے پاک کیا اور ان کو گمراہی کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت کی نورانی منزلوں پر ڈال دیا۔ چرس، بھنگ اور افیون جیسے رسوائے زمانہ نشوں سے انھیں باز رکھا اور لوٹایا۔ چنگ و رباب سے چھٹکارا دلا کر یاد الٰہی میں مصروف کر دیا۔ بد اعمالیوں اور بداخلاقیوں سے توبہ کروا کے نیک اعمال وصاحب اخلاق حمیدہ بنایا۔ صاحب تحفۃ الاولیاء فرماتے ہیں کہ 993ھ میں بایزید انصاری الملقب پیرروشن نے جب حکومت مغلیہ کے خلاف شورش کی تو جلال الدین اکبر خود مقابلہ کے لیے آیا۔ اس سفر میں اکبر بادشاہ آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ کھجور والی مسجد میں مقیم تھے۔ طالب دعا ہوا، آپ نے توجہ کاملہ کے ساتھ دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے اکبر کو فتح و ظفر سے نوازا اورتاریکیوں کو پراگندہ کیا۔

وصال

[ترمیم]

آپ کی وفات شاہ جہاں بادشاہ کے عہد میں بعمر 95 سال27 رمضان المبارک 1040ھ میں ہوئی۔ اور اس آفتاب علم ظاہر ی و باطنی، قطب الاقطاب، غوث وقت کو اکبر پورہ تحصیل پبی ضلع نوشہرہ سے تقریباً ایک میل سڑک شاہی کی طرف سپرد خاک کیا گیا۔ ہزارہا لوگ آپ کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور بڑے بڑے مشائخ نے آپ سے فیض لیا اور اب بھی فیضیاب ہوتے ہیں۔[1][2]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. تذکرہ علما ومشائخ سرحد ،جلد اول،صفحہ 16 تا24 محمد امیر شاہ قادری،مکتبہ الحسن یکہ توت پشاور
  2. دائرہ معارف اسلامیہ جلد 2 صفحہ210 جامعہ پنجاب لاہور